امتحانات میں پاسنگ مارکس 33 فیصد ہی کیوں رکھے جاتے ہیں؟

0
54
interesting facts about exam system

کیا آپکو پتہ ہے کہ امتحان میں صرف 33فیصد نمبر ہی کیوں رکھے جاتے ہیں،اس سے زیادہ یا کم کیوں نہیں؟

آج ہم اسکا حقیقت اور اسکے پیچھے کہانی بتائے گے جسکو اننے کے بعد آپکو بہت ہی حیرانگی ہوگی،اور ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوگا۔

لفظ تعلیم عربی لفظ سے نکلا ہےاور اسکے معنی جاننا یا اگاہی حاصل کرنے کے ہیں،لیکن اسکو انگریزی میں ایجوکیشن کہتے ہیں لیکن یہ لفظ لاطینی زبان سے نکلا ہےاور اسکے معنی ہیں نشونما پانا،آگے کیطرف بڑھنا یا بڑھوتری ہونا۔

ہم اپنی زندگی میں 2 طرح کے علم حاصل کرتے ہیں ایک دینی دوسرا دنیاوی۔

دینی علم کیلئے دنیا ایک امتحان ہےجسکا نتیجہ ہمیں  آخرت میں ہی ملے گا لیکن دنیاوی تعلیم کا صلہ ہمیں اسی دنیا میں ہی ملے گا۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں کامیاب ہونے کیلئے صرف 33 فیصد مارکس ہی درکار ہوتے ہیں لیکن یہ آپ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہر امتحان میں 33 فیصد مارکس ہی کیوں رکھے جاتے ہی ہیں اور اس سے زیادہ یا کم کیوں نہیں رکھے جاتے۔

امتحانات میں پاسنگ مارکس کا آغاز بہت ہی قدیمی ہے،1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں 1858 کے بعد پہلا امتحان ہوا تو انگریز کو یہ چیز درکار ہوئی کہ امتحان میں کتنے پاسنگ مارکس رکھے جائے ۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریز نے برطانوی حکومت کو خط لکھا اور اس خط کے جواب میں بیان کیا گیا کہ برطانیہ میں پاسنگ مارکس تو 65 فیصد ہیں لیکن ہندوستان کے سٹوڈنٹس برطانیہ کے بچوں کا مقابلہ بالکل نہیں کر سکتےکیونکہ وہاں کے لوگ آدھی عقل والے ہیں،اس لیے وہاں کے طالبعلموں کو پاسنگ مارکس صرف ساڑھے 32 فیصد ہی دیے جائے ،انگریز حکومت اس سوچ کے حامل تھے کہ ہندوستان کے سٹوڈنٹس بہت ہی کمزور ہیں اور وہ انگلینڈ کے بچوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔

سال 1961 تک 32.5 فیصد کا ہی سلسلہ چلتا رہااسکے بعد سیدھا حساب رکھنے کیلئے اس سسٹم کو تبدیل کرکے 33 فیصد کر دیا گیااور بد قسمتی سے یہی نظام آج بھی پاکستان اور بھارت میں لاگو ہے۔

یہ بھی پڑھیئے۔

بچوں کا زیادہ موبائل استعمال کرنا انکی آنکھوں کا بہت بڑا دشمن ہے۔ پڑھیئے اس رپورٹ میں

کرونا وائرس کی ویکسین میں بڑی پیش رفت

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here