ڈی ڈبلیواردوکےفیسبک سروے کی مطابق زیادہ تر عوام سرعام پھانسی کے حق پر ہےاور ماہرین کے طرف سے اس کے بارے میں کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا دینے سے بھی کرائم میں زیادہ کمی نہیں آتی اور انسانی حقوق کیلئے عالمی آرگنائزیشن ایمنسٹی انٹرنیشنل کیطرف سےایک بیان ہے کہ سزائےموت دینےسےان غلیظ جرائم میں کمی بالکل نہیں آتی اورانکامزیدبیان ہےکہ سزائے موت دینے والے ممالک زیادہ تر یہ رائے رکھتےہیں کہ جرائم کو روکنے کیلئے سزائے موت ٹھیک حل ہے دراصل انکی رائے نسبتاغلط ثابت ہوتی ہےاور ایسا کوئی پروف اس سوسائٹی میں موجود نہیں کہ سزائے موت دینے سے ان گندے کرائم میں کمی آئی ہواورانکی طرف سے یہ کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا دینے سے بہتر ہے اس مجرم کو تاحیات جیل کی سلاخوں میں بند کر دیا جائے۔
اورایسےکئی انٹرنیشنل بیان کے مطابق پاکستانی عوام مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے حق میں ہےاور ڈی ڈبلیو اردو سروس کے فیس بک پر ایک سروے کرایا گیا جس میں ساڑے 16 ہزار فیس بک استعمال کرنے والوں نے اس جائزے میں شرکت کی اور ان میں سے 94 فیصد سرعام سزائے موت کے حق پر تھے ا ور صرف 6 فیصد لوگوں نے اس جائزے پر منفی کا ووٹ دیا اور یہ ایک آن لائن سروے تھااور یہ سروے پاکستان قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری کےبعدپیش کیا گیا اور پاکستان قوی اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی گئی اس میں صاف لکھا تھا کہ جنسی زیادتی اور جو قتل کرنے والے مجرم ہوگے انکو سرعام پھانسی دی جائے گی۔
اور دوسری طرف ایم۔کیو۔ایم کے رہنما اورپاکستان کے وفاقی وزیر قانون نےاس بل کی مخالفت میں کہا کہ ایسی سزا پاکستان کے آئین کےخلاف ہے اوراسلامی طریقے سے بھی ایسا جائز نہیں ہے اور وزیر قانون کے مطابق 1994 میں پاکستان کی سپریم کورٹ سرعام پھانسی کی سزا کو غیر آئینی قرار دے چکی ہےاور وزارت قانون آئین اوراسلام کی تعلیمات کےخلاف ایسا کوئی قانون پاس نہیں کریں گی
اوردوسری طرف وزیر برائےانسانی حقوق نے اس قرارداد کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایک ٹویٹ دیا ہےکہ مجرم کو سرعام سزائے موت دینے پر یہ قراردادپارٹی کی بنیادوں پردی گئی ہےاور اسے حکومت کی منظوری بالکل بھی نہیں ہےتو اسے ایک زاتی عمل سمجھا جائےاور ہم مین سے کافی لوگ اس قرارداد کو منظور نہیں کرتےاور ہماری وزارت برائے انسانی حقوق اس کی بالکل بھی حمایت نہیں کرتی اور بد قسمتی یہ کہ میں اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں تھی جس دن یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔