عالمی وبا انفلوئینزا نے 1918 میں ہندوستان کا کیا حال کیا اور ہمیں کیا سیکھنا چاہیے۔

0
30
Corona viurs is not first disease

اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس سے لڑنے میں مصروف ہے۔

لیکن کورونا وائرس ااس زمین پر کوئ پہلا وبائ حملا نہیں ہے ،اس سے پہلے بھی ایسی وبائیں زمین میں پھیلی جنہوں نے انسانوں کو نا قابل حد تک نقصان پہنچایا۔

اگر 1918 میں پھیلنے والے انفلوئنزا کی بات کی جائے تو اس بیماری نے دنیا کی آبادی کا تیسرا حصہ ختم کر دیا تھا۔

Image result for pandemic 1918

پچھلی صدی 1918 کی وبا کو سامنے رکھتے ہوۓ ہمیں اپنے بچاؤ کو ممکن بنانے کے لیے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

ہندوستان میں 1918 کے شروع میں گجرات سے شروع ہونے والےانفلوئینزا نے جون 1918 میں تباہی مچانا شروع کر دی تھی۔

اس وقت گاندھی 48 برس کے تھے اور وہ 4 سال بعد ساؤتھ افریکہ سے آۓ تھے

انفلوئنزا کی تباہی سے گاندھی بھی محفوظ نہ رہ سکے، جب ان کی بیماری کی خبر پھیلی تو لوگوں میں جیسے قہرام مچ گیا

ایک مقامی اخبار نے لکھا: “گاندھی کی زندگی گاندھی  کی نہیں بلکہ اس کا تعلق بھارت کی زندگی ہے”۔

Image result for pandemic 1918

جون 1918 میں یہ فلو ممبئ میں پر اثر انداز ہوا اور پھر پورے ہندوستان کو تباہ کرنا شروع کردیا۔

اس وقت کے ہیلتھ انسپکٹرز کے مطابق یہ بیماری ہندوستان میں ایسے آئ جیسے رات کو کسی گھر میں چور داخل ہوتا ہے اور سب کچھ لوٹ لیتا ہے۔

اس وبا کی دوسری لہر کا وار انتہائ تیز تھا۔

یہ لہر جنوبی ہندوستان میں پھیلی اور ساحلی علاقوں میں پھیل گئ۔

اس بیماری نے پورے ہندوستان میں 17 سے 18 ملین لوگوں کو موت کی نیند سلایا جو کہ پورے ہندوستان کی 6 فیصد آبادی تھی۔

محتاط اندازے کے مطابق اس وبا سے اتنی اموات ہوئ کہ جو جنگ عظیم اول میں تمام جانی نقصان سے بڑھ کر ہے۔

اس حساب سے ہندوستان نے موت کا کافی بوجھ اٹھایا اور لوگ جن حالات سے گزرے وہ چند لفظوں میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔

اس عالمی وبا نے دنیا کی تیسری آبادی کو متاثر کیا اور 50 سے 100 ملین کے درمیان لوگ لقمہ اجل بنے،

جو کہ دنیا کی آبادی کا تیسرا حصہ بنتا تھا۔

ہندی زبان کے مشہور ادیب اور شاعر، سریاکنٹ تریپتی، جو نرالا کے نام سے مشہور ہیں،  ان ہندوستانی لوگوں میں سے ایک تھے جن کا گھر بے رحم وبا نے اجاڑ دیا تھا۔

نرالا لکھتے ہیں کہ  انہوں نے اپنی بیوی اور اپنے خاندان کے کئی افراد کو فلو میں کھو دیا۔

انہوں  نے کہا میرے اہل خانہ،”پلک جھپکنے میں میرے آنکھوں سے غائب ہوتے گئے، یقینن یہ ایک دردناک حالت ہوگی جس سے نہ صرف ایک ادیب گزرا بلکہ بےشمار لوگ بھی گزرے تھے۔

تایخ کے اوراق پلٹ کر دیکھنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حالات یہ پیدا ہو گئے تھے کہ لاشوں کی انبار لگ جاتے تھے مگر اور ان کو جلانے کے لئے لکڑی نہیں ملتی تھی۔

خشک سالی کی وجہ سے قحط کے حالات پیدا ہو گئے تھے اور لوگ جسمانی کمزور ہوتے رہے جس کہ وجہ سے بیماری با آسانی کسی بھی انسان پر حملہ کر دیتی تھی۔

بےشک اس بات میں کوئ شک نہیں ہے کہ آج کی میڈیکل سائنس میں اور اس وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

کورونا وائرس کی ویکسین بنائ تو جا چکی ہے مگر اس کی ٹیسٹنگ کا عمل ابھی جاری ہے، اب یہ بات قسمت پر بھی منحصر ہے کہ کب تک ہمارے سائنسدان اس کاوش میں مکمل کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

جب 1918 کی فلو کی وبا اور اسکی تباہی کی اسباب پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ

اس وقت دنیا کی جو بھی موڈرن ادویات موجود تھی انہیں چھوڑ کر ہندوستان میں زیادہ تر لوگوں نے دیسی دوائیوں پر انحصار کیا۔

اس کے علاوہ ایک صدی کے فرق کے دو پنڈیمکس ( عالمی وباؤں) کے درمیان کچھ حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔

ممکنہ طور پر پچھلی صدی کے فلو سے سیکھنے کے لئے کچھ متعلقہ سبق بھی موجود ہیں۔

جیسا کہ بہت بڑی آبادی والے شہروں میں وبا کا پھیلاؤ نہایت تیز ہوتا ہے اسی بات کو لیکر ماہرین پریشان بھی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ 1918 نہیں ہے۔

Image result for pandemic 1918 in indai

ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ ایسا وقت آن پہنچا تھا کہ ہر گھر میں کم از کم ایسا مریض ضرور تھا جسے بخار ہو۔

اس وقت ماہرین نے بھی لوگوں کو اخبارات کے زریعے مشورہ دیا کہ میلوں، تہواروں، تھیٹروں، اسکولوں، عوامی لیکچر ہالوں، سنیما گھروں، تفریحی جماعتوں سے دور رہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھر پر گزاریں۔

تب بھی ماہرین نے یہی کہا تھا کہ وبائی مرض کے موقع پر اپنی صحت کا خیال رکھنا اور اپنی خوراک کا خیال رکھنا عام دنوں کی نسبت زیادہ ضروری ہو جاتا ہے، ایسے حالات میں ہر انسان کو چاہیے کہ اچھی خوراک لیتے ہوئے اپنے قوت مدافعت کے نظام کو مضبوط بنائے رکھے۔

قوت مدافعت کیسے بڑھائ جائے؟

ماہرین کے مطابق 8 گھنٹے کی نیند، متوازن غذا اور نارمل  ورزش کر کے آپ اپنی قوت مدافعت کو بہتر رکھ سکتے ہیں جو کہ خاص طور پر کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔

انقرہ میڈیکل یونیورسٹی کے ڈین سینلیر نے لوگوں کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ لوگ دودھ، دہی، پنیر، گوشت، مچھلی، انڈے، خشک میوہ جات، سبزیاں اور پھل کھائیں اور خود کو اس مشکل حالات میں مضبوط رکھیں

سوشل ڈسٹنسنگ

اس وقت بھی ڈاکٹرز نے لوگوں کو گھروں میں اکیلے وقت گزارنے کا مشورہ دیا تھا۔

ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے کم از کم ایک میٹر اور بہتر یہ ہے کہ 6 فٹ کا فاصلہ اختیار کریں۔ اور زیادہ سے زیادہ وقت اکیلے گزاریں۔

ہاتھوں کی صفائی

ہاتھوں کی صفائ کے لیے صابن اور سوپ دونوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے مگر یہاں اس بات کو بیان کرنا نہایت ضروری ہے کہ لوگ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ  صابن کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا سنیٹائزر کا۔

ماہرین کے مطابق صابن سے ھاتھ دھونا سینیٹائزر کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔

اور اگر آپ سینیٹائزر کا استعمال کر رہے ہیں تو اس بات کا دھان رکھیں کہ اس میں کم از کم 60٪ الکوحل موجود ہو۔

ان تمام باتوں پر عمل کرکے اور پچھلے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہم خود کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here